Top Rated Posts ....

Saudi Govt Imposed Restrictions on Mosques' Loudspeakers

Posted By: Sabir Ali, June 05, 2021 | 04:23:14


Saudi Govt Imposed Restrictions on Mosques' Loudspeakers




سعودی عرب میں مساجد کے لاؤڈ سپیکر کی آواز کم کرنے کا فیصلہ زیر بحث

سعودی عرب میں حکام نے حکومت کے اس اقدام کا دفاع کیا ہے جس کے تحت مساجد میں لاؤڈ سپیکروں کے استعمال کو محدود کیا جائے گا۔

گذشتہ ہفتے ملک میں اسلامی امور کی وزارت نے اعلان کیا تھا کہ مساجد کے لاؤڈ سپیکروں کی آواز کو اپنی بلند ترین سطح سے کم کر کے اسے ایک تہائی تک اونچا کرنے کے بعد آذان دی جا سکے گی۔

ان ہدایات کے مطابق عام نمازوں میں صرف آذان اور اقامت کو بیرونی لاؤڈ سپیکروں پر ادا کیا جاسکے گا جبکہ مکمل نماز یا خطبات لاؤڈ سپیکر پر نہیں دیے جاسکیں گے۔

وزارتِ اسلامی امور کے وزیر عبد اللہ لطیف الشیخ نے کہا کہ یہ اقدام عوامی شکایات کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا پر قدامت پسند سعودی عرب میں کافی تنقید کی جا رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ملک میں سوشل میڈیا پر ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنا شروع ہو گیا جس میں ریستورانوں اور کیفے میں اونچی آواز میں موسیقی پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ اگر آواز زیادہ ہو تو مساجد کے اردگرد رہنے والے لوگوں کے لیے یہ تنگی کا باعث ہے۔

عبد اللہ لطیف الشیخ کا کہنا ہے کہ شکایات کرنے والوں میں ایسے والدین بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ لاؤڈ سپیکروں سے ان کے بچوں کی نیند خراب ہوتی ہے۔

ریاستی ٹی وی پر ایک ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے نماز پڑھنی ہوتی ہے وہ امام کی آذان کا انتظار نہیں کرتے۔‘

انھوں نے اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں کو ‘سلطنت کے دشمن‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ عوامی امن بگاڑنا چاہتے ہیں۔

یہ پابندیاں ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ملک کو قدرے آزاد خیال اور مذہب کا عوامی زندگی سے کردار کم کرنے کی کوششوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہیں۔

ملک میں معاشرتی پابندیوں میں نرمی آئی ہے۔ تاہم انھوں ملک میں آزادیِ اظہارِ رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور ہزاروں ناقدین کو جیلوں میں بھی ڈالا ہے۔

ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ قدامت پسند ملک کے مذہبی علما کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔

انھوں نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی، بغیر مرد کفیل کے کاروبار شروع کرنے کا موقع دیا اور ان کے ہی دور میں ایک خاتون سعودی عرب کی سٹاک ایکسچینج کی سربراہ بنی۔

اسی طرح آماد خیالی کا سلسلہ جاری رہا اور اپریل 2018 میں 35 برس بعد سعودی عرب کے سینما میں دوبارہ فلم دکھائی گئی، اور سعوی عرب میں پہلے اینٹرٹینمنٹ سٹی کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔

ایم بی ایس نے اکتوبر 2017 میں کہا تھا کہ 'گذشتہ 30 سال میں جو کچھ ہوا، وہ سعودی عرب کا حقیقی روپ نہیں تھا۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد لوگوں نے مختلف ممالک میں اس کی نقل کرنا چاہی تھی۔ ان میں سے ایک سعودی عرب بھی تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اور یہ مسئلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔'

سنہ 2019 میں ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے انتہائی قدامت پسند تاثر کو ختم کرنے کے لیے ملک میں فلم تھیٹر، موسیقی کے مخلوط کنسرٹس اور کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کو شروع کیا اور اس بات کا تہیہ کیا کہ ملک کو اب اعتدال پسند اسلام کی جانب لے جایا جائے گا۔

ماضی میں مذہبی پولیس کے اہلکار گلیوں اور بازاروں میں گھومتے تھے اور ایسی خواتین کو تنبیہ کرتے جنھوں نے شوخ رنگ کی پالش لگائی ہوئی ہوتی اور ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بناتے کہ مرد اور عورت ساتھ نہ اٹھیں بیٹھیں۔

مگر خیال رہے کہ امریکی صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جمال خاشقجی کو سنہ 2018 میں استنبول کے سعودی سفارت خانے میں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کی عمارت کے اندر سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل میں ملوث ہونے کے تمام الزامات کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تردید کی تھی۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی حکومت کی جانب سے منظرِ عام پر لائی جانے والی انٹیلیجنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔



Source: BBC Urdu




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...