Top Rated Posts ....

Dissident member's vote will not be counted - Supreme Court announces verdict

Posted By: Nasir, May 17, 2022 | 13:24:49


Dissident member's vote will not be counted - Supreme Court announces verdict


منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا ، منحرف رکن پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا۔


Youtube



منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کوئی بھی رکن ووٹ دیتا ہے تو وہ شمار نہیں ہوگا۔

اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیئے، فیصلے میں کہا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ مستقبل میں انحراف روکنے کا سوال عدالت نے صدر کو واپس بھجوا دیا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد جماعتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں، انحراف کرنا سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد انحراف سے روکنا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ انحراف کرنا سیاست کے لیے کینسر ہے۔ انحراف کرنا سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوتے ہوئے صدارتی ریفرنس نمٹا دیا۔


آرٹیکل 63 اے فیصلے میں جسٹس مندوخیل اور مظہر عالم نے اختلاف کیا۔ فیصلہ دو اور تین کی نسبت ہے۔ چیف جسٹس، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی فیصلہ دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہو گئی ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو شام ساڑھے پانچ بجے سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں منگل کو پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی جس کے دوران نئی حکومت کے تعینات ہونے والے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ایڈوائزری اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے۔ صدارتی ریفرنس اور قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔ صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملے پر رائے مانگی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ارٹیکل 186 میں پوچھا گیا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا۔ عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں۔ آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں حکومت کی طرف کوئی ہدایت نہیں ملی۔ اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آ چکا ہے۔ اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا جو پہلے تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے اور ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا ہے۔ بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا موقف لے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا یہ حکومت کا موقف ہے؟ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے۔ سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کے لیے ان کے وکلا موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر فریقین سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں اور دوسرا فریق سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں۔

معاملہ اب صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے۔ عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن سر تسلیم خم کرتا ہوں۔


Source



Comments...