Top Rated Posts ....

Israel Vs Palestine, some ground realities - An article by Zahida Hina

Posted By: Sohail, November 18, 2023 | 08:07:13


Israel Vs Palestine, some ground realities - An article by Zahida Hina



حماس بمقابلہ اسرائیل؛ کیا جنگ مسئلے کا حل ہے؟ ۔ تحریر زاہدہ حنا

چند دنوں پہلے اس خبر نے اچانک پوری دنیا کو چونکا دیا کہ حماس کے فوجیوں نے اسرائیل پر حملہ کردیا ہے۔ اس حملے کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جو تاحال جاری ہے۔

2006 میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑی لڑائی ہوئی تھی جو 35 دن جاری رہی جس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ حماس کے حملے کے چند دنوں کے اندر اسرائیل کو 2006 کی جنگ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق اب تک اس لڑائی میں سیکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کا ایک بڑا حصہ اسرائیلی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

اسرائیل پر یہ فوجی حملہ عسکریت پسند حماس او ر اسلامی جہاد نامی تنظیم کی جانب سے کیا گیا ہے جو اسرائیل کے وجود کو کسی بھی قیمت پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے برعکس زمینی حقائق کافی مختلف ہیں۔بہت سے اسلامی ملک جن میں ترکی سرفہرست ہے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک تھا جس نے مارچ 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا۔ اس وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔

خلیجی ریاستیں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کررہی ہیں اور سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے۔ عرب ملکوں میںمصر نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے بعد اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اس صورت حال میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر جو حملہ کیا گیا ہے اس کی مسلم دنیا بالخصوص عرب ممالک کی جانب سے ماضی کی طرح کی پرجوش حمایت نظر نہیں آرہی ہے۔


حماس کے حملے سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ حماس نامی تنظیم کی غزہ کے علاقے میں بالادستی ہے اور وہ وہیں سے اسرائیل کے خلاف حملے کرتی ہے۔ اسرائیل کے شہر یروشلم میں کافی خوف و ہراس ہے لیکن مالی اور جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسرائیل کی اتنی بڑی انٹیلی جنس ناکام کیوں ہوئی اور حکومت حماس کے حملے سے بے خبر کیوں رہی۔ اس کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں تاہم، اس حقیقت سے ہم بہت کم واقف ہیں کہ اسرائیل کے عوام کی ایک بڑی تعداد غزہ پر اسرائیلی قبضے کو پسند نہیں کرتی۔

اسرائیلی فوجی یہاں تک کہ ائیر فورس کے پائلٹ تک فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بے مقصد اور بلاجواز محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان موجود محاذ آرائی اور فلسطینی عوام کے لیے اسرائیل کے اندر اور مغرب میں موجود حمایت کا غیر جذباتی جائزہ لینا چاہیے تاکہ اصل حقیقت ہمارے سامنے آسکے۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1881 میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی ہجرت ہوئی جہاں انھوں نے اپنی بستیاں قائم کرلیں۔ اس وقت اس خطے کا نقشہ بالکل مختلف تھا۔ فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں تھا، فلسطین کا زیادہ تر حصہ ریگستانی تھا۔


یہودیوں نے فلسطین میں آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ یروشلم ان کا سب سے مقدس شہر تھا۔ فلسطین میں اس وقت بھی مسلمان، عیسائی اور یہودی رہا کرتے تھے لیکن ان کے درمیان محاذ آرائی اور دشمنی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین میں قائم بستیاں ایک دوسرے سے کافی دور اور الگ تھلگ ہوا کرتی تھیں۔

فلسطین کا موجودہ مسئلہ برطانیہ کا پیدا کردہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں عرب، سلطنت عثمانیہ کے خلاف نبردآزما تھے اور ان میں عرب قوم پرستی کا جذبہ عروج پر تھا۔ برطانیہ نے عرب قوم پرستوں کو یہ جھانسہ دیا کہ ترک ’’استعمار ‘‘کی شکست کے بعد عرب علاقے ان کے حوالے کردیے جائینگے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہودیوں کو یقین دلایا کہ جنگ میں فتح کے بعد فلسطین کو ان کا ملک بنا دیا جائے گا۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی ہار کے بعد فرانس اور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے مختلف حصوں کو آپس میں بانٹ لیا اور موجودہ فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ معاشی لحاظ سے تقریباً دیوالیہ ہوگیا تھا اور وہ بڑی عجلت میں اپنے مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے لگا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد 1947میں ایک خستہ حال بحری جہاز فرانس سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا تھا‘ اس میں نازی قید سے رہائی پانے والے 4500 تباہ حال اور فاقوں سے نڈھال یہودی سوار تھے۔ یہ لوگ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مختلف کیمپوں میں زندگی بسر کررہے تھے اور اس امید پر زندہ تھے کہ شاید کوئی ملک انھیں قبول کرلے۔

اس وقت کچھ صیہونیوں نے ان نیم مردہ لوگوں کو نہ صرف فلسطین تک پہنچانے بلکہ دنیا اور بہ طور خاص برطانوی اور یورپی عوام کی توجہ ان کی حالت زار کی جانب مبذول کرانے کے لیے یہ طے کیا کہ وہ ایک جہاز میں حیفہ بھیجے جائینگے جس کی ناکہ بندی برطانوی بحریہ نے کررکھی تھی اور یہ خبردارکررکھاتھا کہ کسی کو بھی اس ناکہ بندی کو توڑنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔

یہ جہاز جس کا نام Exodus رکھا گیا تھا جب حیفہ کی بندرگاہ سے کچھ فاصلے پر تھا تو اسے برطانوی بحریہ کی طرف سے واپس جانے کا حکم ملا جسے ’’اکزاڈس‘‘ کے پولش کپتان نے ماننے سے انکار کردیا۔ برطانوی بحریہ کے تین تباہ کن جہاز برطانوی فوج کے جوانوں کے ساتھ ’’اکزاڈس‘‘ پر چڑھ دوڑے اور انھوں نے بہ جبر اس جہاز کو واپس بھیجنا چاہا، وہ لوگ جو اپنی زندگی سے تنگ آچکے تھے ان میں سے کوئی ڈنڈا اور کوئی گوشت کے بند ڈبے لے کر ان ’’شیر دل‘‘ جوانوں سے نبرد آزما ہوا۔

نتیجے میں شیر دل نوجوان محفوظ رہے لیکن پناہ کی تلاش میں نکلنے والے تین لوگ مارے گئے اور ’اکزاڈس‘ کو بین الاقوامی پانیوں میں لنگر انداز ہوناپڑا۔ چند دنوں بعد یہ لوگ ایک دوسرے بحری جہاز پر منتقل کیے گئے اور واپس جرمنی بھیج دیے گئے جہاں سے نازی فوجیوں نے انھیں پولینڈ کے بدنام زمانہ کیمپوں میں دھکیل دیا تھا۔

پولینڈ اس وقت ہٹلر کی فوجوں کے قبضے میں تھا اور وہاںبے شمار یہودی کنسٹریشن کیمپوں میں اجتماعی طور پر ہلاک کیے گئے تھے۔ یہ ساڑھے چار ہزار یہودی جب واپس جرمنی پہنچائے گئے تو یورپ اور امریکا کی رائے عامہ برطانوی اور امریکی حکومتوں کے خلاف ہوگئی اور یہ واقعہ فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل نامی یہودی ریاست کے قیام میں ایک بڑا محرک ثابت ہوا۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک حصہ یہودی آبادی جب کہ دوسرا حصہ عربوں کو دے دیا گیا۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی موجودگی کے پیش نظر یروشلم کے شہر کو بین الاقوامی شہر قرار دیاگیا۔ اس تقسیم کو عربوںنے مسترد کردیا جب کہ یہودی آبادی نے اسے قبول کرلیا۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد اسرائیل اور عربوں کے درمیان چھ روزہ جنگ ہوئی جس میں اسرائیل نے عرب ملکوں کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا، جس میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ بھی شامل ہے۔

غزہ کی پٹی پر رہنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کی داستان بہت پرانی ہے۔ یہ مقبوضہ علاقہ بجلی، پانی اور کھانے پینے کی زیادہ تر اشیاء کے لیے اسرائیل کا محتاج ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اس وقت بھی غزہ کی ناکہ بندی کی جاچکی ہے جہاں غذائی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ایسا عمل 2010 میں کیا گیا تھا۔ اس وقت عالمی سطح پر ایک ’’کاروان آزادی‘‘ امدادی سامان لے کر غزہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔

غزہ کے غذا سے محروم لوگوں کے لیے دنیا بھر کے 40ملکوں کے امن رضاکار غذائی اجناس ‘ دوائیں‘ سیمنٹ‘ دوسرا تعمیراتی سامان اور معذوروں کے لیے وہیل چیئر لے کر جارہے تھے کہ انھیں بین الاقوامی پانیوں میں پہلے بہ جبر روکا گیا اور پھر اسرائیلی بحری جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے اسرائیلی’’ایلیٹ کمانڈو‘‘ امدادی سامان اور امن رضاکار لے جانے والے سب سے بڑے جہاز پر اترے۔

اس وقت جب صبح کاذب تھی‘ قتل اور خون کا بھیانک کھیل شروع ہوا۔ اس امدادی بیڑے پر ہونے والے وحشیانہ حملے کے فوراً بعد اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں فلسطینیوں کے حق میں اور اپنی حکومت کے خلاف سیکڑوں یہودیوں نے مظاہرہ کیا۔ اسی طرح اسرائیل میں چھپنے والے اخباروں میں بعض یہودی صحافیوں نے جرأت مندی سے اپنی حکومت کے اس سفاکانہ اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔

اسی طرح ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ ’’کاروان آزادی‘‘ جہاز پر اسرائیل عرب کینسیٹ کی ممبر پارلیمنٹ حنان ال زویبی بھی سوار تھیں جنھوںنے حملے کے وقت اسرائیلی فوجیوں کو عبرانی میں میگا فون سے خبردار کیا کہ وہ حملے سے باز رہیں کیونکہ اس پر غیر مسلح رضاکار اور دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے صحافی سوار ہیں۔

اس ’’کاروان آزادی‘‘ کے سب سے بڑے جہاز پر فلسطینیوں سے یک جہتی کے اظہار کے لیے سوار جرمن پارلیمنٹ کے تین ارکان انیتے گروتھ‘ انگے ہوگر اور نارمن پیج سوار تھے۔ جہازوں کے اس کاروان میں 40 ملکوں کے لوگ شامل تھے۔

ان میں امریکی شہری گریٹا برلن شامل تھی جو 1960سے فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کے لیے ہونے والی جدوجہد میںشامل رہی ہے۔ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے تین سفر کیے ہیں اور فلسطینیوں کی تباہ حالی کے بارے میں بلاکم وکاست لکھا ہے۔

جولائی 2003 میں جنین پر لگی ہوئی تاروں کی باڑھ میں جو دروازہ لگا ہوا تھا اسے گرانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ اسرائیلی سپاہیوں کی چلائی ہوئی گولیوں سے زخمی ہوئی تھی۔ اس جہاز پر امریکی شہری میڈی ایپسٹین بھی تھی۔


میڈی کی عمر 86برس ہے۔ وہ نسلاً اور مذہباً یہودی ہے۔ جرمنی میں 1924 میں پیدا ہوئی، اس کے ماں باپ نازی کنسنٹریشن کیمپ میں زہریلی گیس سے ہلاک کیے گئے۔ میڈی ان کی اکلوتی اولاد تھی جو خوش بختی سے زندہ رہ گئی اور ان دس ہزار یہودی بچوں کے ساتھ امریکا بھیج دی گئی جو نازیوں کے ہاتھوں سے بچ رہے تھے۔

اس ’’کاروان‘‘ میں 63 سالہ امریکی نرس کیتھرین شینز بھی شامل تھی جو غزہ کے بیماروںکے علاج کے لیے سفر کررہی تھی۔ اسی جہاز پر ڈیوڈ شرمرہارن بھی تھا۔ قومیت امریکی، عمر 80 برس، پیشہ فلم سازی۔ وہ اس سے پہلے بھی فلسطینیوں کے لیے امن و انصاف کی بات کرنے غزہ آیا تھا۔


آئر لینڈ کی کویمی بٹر لی تھی‘’’ عمر 31 برس‘‘ وہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی آئرش رضاکار ہے جو زمبابوے، گوئٹے مالا، لبنان، عراق، ہیٹی اور فلسطین میں کام کرچکی ہے۔ 2002 کے دوران جینین میں فلسطینیوں کے کیمپ میں اس نے ایک برس گزارا۔ اسرائیلی فوجیوں کی گولی سے زخمی ہوئی۔ گرفتار ہوئی اور جبری طور پر مقبوضہ علاقے سے نکال دی گئی۔

اس نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے دوران ایمبولینس چلائی، زخمی فلسطینیوں کو لاش کے انبار سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا اور اسرائیلی جنگی جرائم کی عینی شاہد ہے۔اسی طرح بلفاسٹ کی مائی ریڈماگیور اس کاررواں میں سفر کررہی تھی۔


عمر 66 برس، 1976 میں اسے امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ اسرائیلیوں‘ فلسطینیوں اور دوسرے یورپی ملکوں کے امن رضاکاروں کے ساتھ فلسطینیوں کے حق میں جلوس نکالنے کی خطا میں اسے گولی ماری گئی تھی۔

برطانیہ سے 32 سالہ ایریک ہیرسن، اسکاٹ لینڈ سے 43 سالہ تھریسا میک ڈرموٹ‘ 55 سالہ ڈینس ہیالی‘ جرمنی سے 56 سالہ انیتے گروتھ جو اپنی پارلیمنٹ کی رکن ہے اور حقوق انسانی کے حوالے سے کئی اہم بین الاقوامی اداروں میں کام کرچکی ہے۔

59 سالہ انگے ہوگر جرمن رکن پارلیمنٹ‘ 75 سالہ پروفیسر ڈاکٹر نارمن پیج جرمنی کا رکن پارلیمنٹ اس کے علاوہ ہالینڈ کی 29 سالہ این ڈی جونگ جو پی ایچ ڈی ہے‘ یونان کا 39 سالہ گیورگوس کولنتاز‘ بیلجیئم کی مارگریٹا اور انگے نیفس‘ دونوں نوجوان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے یہ دونوں لڑکیاں استاد ہیں اور دونوں فلسطینیوں کے حق آزادی کو درست سمجھتی ہیں۔ اسی طرح لندن میں رہنے والی پولش ادیب اور صحافی ایواجینی وکز اس کاروان میں شامل تھی ۔

مذکورہ بالا حقائق دہرانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ عالمی ضمیر فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اس کا یقینا مذہبی تناظر بھی ہے۔

تاہم، یہ فرض کرلینا درست نہیں ہوگا کہ یورپ اور امریکا کی رائے عامہ اور دانشور اسرائیل کی غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے۔

یہاں لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خود اسرائیلی عوام بھی اپنی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ جنوری 1988 میں ’’سیاہ پوش عورتیں‘‘ نامی تحریک فلسطین میں انتفاضہ کے ایک ماہ بعد شروع ہوئی۔ یہ اسرائیلی عورتیں سیاہ رنگ کے لباس میں خاموشی سے تل ابیب کی کسی مصروف شاہراہ کے چوراہے پرکھڑی ہوجاتیں۔

ہاتھوں میں گتے کا ایک سیاہ پنجہ ہوتا جس پر عبرانی میںسفید رنگ سے ’’قبضہ ختم کرو‘‘ لکھا ہوتا۔ اس خاموش مظاہرے کی اطلاع اسرائیل کے تمام شہروںمیں پھیلتی گئی اور اسرائیل کے مختلف شہروں کی عورتوں نے ہر جمعہ کو یہ مظاہرہ شروع کردیا۔دسمبر 2001میں 5 براعظموں کے 150 شہروں میںمختلف قومیتوں‘ نسلوں اور عقیدوں کی سیاہ پوش عورتوں نے بھرپور مظاہرے کیے۔

ان میں سب سے بڑا مظاہرہ یروشلم میں ہوا جہاں 5ہزار سے زیادہ اسرائیلی اور فلسطینی عورتوں نے اس مظاہرے میں حصہ لیا۔ ان میں دوبینروں کی عبارت لوگوں کی توجہ کا مرکزرہی۔ ’’قبضہ ہم سب کو ہلاک کررہا ہے‘‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اکیسویں صدی میں نہ فلسطینی سمندر میں غرق کیے جاسکتے ہیں اور نہ کسی ریاست کو دنیا کے نقشے سے کھرچا جاسکتا ہے۔

ہم یہ کیسے بھلا دیتے ہیں کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں ہمارا بھی کچھ حصہ تھا۔ کیا جنرل ضیاء الحق کی وردی پر نیلے رنگ کے ریشمی پٹکے میں جو ’’ستارۂ اردن‘‘ آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا‘ وہ انھیں اردن میں پناہ لینے والے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کے انعام میں نہیں دیا گیا تھا؟

مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے۔ غزہ پر عملاً حماس کی حکمرانی ہے۔ مذکورہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینی دونوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ یہ مقبوضہ علاقہ اب 30 سال پہلے قائم ہونے والی فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہے جس کے سربراہ 87 سال کے محمود عباس ہیں۔

محمود عباس طویل عرصے سے حکمران ہیں لیکن ان کی انتظامیہ نے فلسطینیوں کو ووٹ کے حق سے مسلسل محروم رکھا ہوا ہے۔

1993 فلسطین کی تاریخ کا اہم دن تھا جب اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن اور پی ایل او کے صدر نے تاریخی امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جس کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کا انتظام سنبھالنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ محمود عباس ایک آمر کی طرح حکومت کررہے ہیں انھوں نے کئی سال پہلے پارلیمنٹ تحلیل کردی تھی اور اپنی سیاسی عدم مقبولیت کے باعث وہ انتخابات کرانے سے گریزاں ہیں۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں بالخصوس عرب ملکوں میں ایک نئی سوچ پیدا ہورہی ہے اور ان کا سیاسی طرز عمل بھی تبدیل ہورہا ہے۔ تیل پر انحصار کرنے کے بجائے یہ ملک مذہبی اور مسلکی امتیاز سے بالاتر ہوکر ہر ملک کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات استوار کررہے ہیں۔جس سے علاقائی اور عالمی کشیدگی میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے۔ فہم اور فراست کا تقاضا ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے۔

جاپان پر امریکا نے ایٹم بم گرائے لیکن جاپان نے امریکا سے بدلہ لینے کے لیے معاشی میدان میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور آج جاپان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معاشی طاقت ہے اور اس سے تعاون کرنا امریکا کی مجبوری بن چکی ہے۔

جرمنی اور چین سمیت درجنوں ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنھوں نے تشدد اور انتقام کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ معاشی طاقت بن کر ماضی کے حریفوں کو سیاسی طور پراپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔

اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ اتنا سادہ نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ عالمی برادری کے تعاون اور مذاکرات کے ذریعے ہی اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔

تشدد، جوابی تشدد کا باعث بنتا ہے اور اس میں لڑنے والوں سے زیادہ ہلاکتیں بے گناہ شہریوں کی ہوتی ہیں۔ ہر فریق کے پاس تشدد اور جوابی تشدد کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی جواز موجود ہوتا ہے لیکن اس سے جنگ نہیں بلکہ صرف بحث ہی جیتی جاسکتی ہے۔


Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...